محترم حکیم صاحب السلام علیکم! میں ایک بہت بڑی پریشانی میں گرفتار ہوچکا ہوں اور اس پریشانی کی وجہ بھی میں خود ہی ہوں۔ مسئلہ یہ ہے کہ میں نے اللہ تعالیٰ سے قرآن پر ہاتھ رکھ کر کچھ وعدے کیے تھے لیکن بہت افسوس اور شرمندگی کے ساتھ کہ میں اللہ تعالیٰ سے کیے ہوئے وعدوں پر قائم نہ رہ سکا جس کی وجہ سے میرا رب مجھ سے ناراض ہے۔
میری اپنی دکان تھی‘ کاروبار تھا اب نہ تو دکان ہے اور نہ کوئی کاروبار اور نہ کوئی روزگار‘ قرض کے نیچے دب گیا ہوں اور دوسرا نقصان یہ ہوا ہے کہ میری بیوی مجھ سے ناراض رہتی ہے۔ کوئی عزت نہیں کرتی تمام سسرال والے اور اپنے بہن بھائی کوئی عزت نہیں کرتے کوئی پرواہ نہیں کرتے۔
اس وقت صرف میرے والدین میری عزت کرتے ہیں اس کی وجہ شاید یہ ہے کہ وہ بیمار رہتے ہیں اور میں ان کی خدمت کرتا ہوں اور میرے بچے میرے ساتھ بہت پیار محبت کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ تقریباً ہر انسان میرے سے دور بھاگتا ہے۔ محترم حکیم صاحب! مجھے اس مسئلہ کا حل بتائیں۔ میرا رب مجھ سے راضی ہوگئے رب کے بندے مجھ سے راضی ہوجائیں اور اللہ تعالیٰ مجھے کوئی روزگار عطا فرمائے۔
گدھے کاٹتے ہیں (منظور احمد‘ احمدپور شرقیہ)
ہمارے علاقے میں ایک شخص رہتا تھا جس کا نام ”رحمت موچی“ تھا۔ وہ گدھوں کے ذریعے مٹی ڈھونے کا کام کرتا تھا۔ اس کے پاس ہر وقت 8/10 گدھے موجود رہتے تھے کیونکہ لوگ تنگ محلوں‘ گلیوں میں رہتے ہیں۔ اس لیے ٹرالی‘ ریڑھی وہاں ان کے گھروں تک نہیں پہنچتی اس لیے گدھوں کے ذریعے لوگ مٹی ڈلواتے ہیں۔ اس سلسلے میں فضل کٹانہ مشہور تھا اور مٹی ڈالنے میں کوئی کوتاہی نہیں کرتا تھا۔ البتہ گدھوں پر بہت زیادہ سختی کرتا تھا اکثر گدھوں کو بھوکا رکھتا تھا اور رات کو گلیوں میں چھوڑ دیتا تھا جو کچھ انہیں ملتا کھالیتے تھے۔ اپنی طرف سے فضل کوئی چارہ وغیرہ نہ کھلاتا تھا۔ خاص طور پر رسہ باندھنے سے جو گدھوں کو زخم ہوجاتے ہیں وہ گدھوں کو ان زخموں پر مارتا تھا اور زخم کو مندمل نہ ہونے دیتا تھا۔ حالانکہ وہ خود کہتا تھا کہ اس کے پاس زخم ٹھیک کرنے کا ایسا ٹوٹکہ ہے کہ زخم دو دنوں میں بالکل ٹھیک ہوجائے۔ وہ جان بوجھ کر زخم ہرے رکھتا تھا تاکہ گدھے مستقل اذیت میں رہیں۔ سارے لوگ اسے منع کرتے تھے کہ گدھے بھی اللہ تعالیٰ کی مخلوق ہیں۔ ان میں بھی جان ہے یہ بھی گوشت کے بنے ہوئے ہیں۔ ان میں بھی احساسات ہیں‘ یہ بھی بھوک محسوس کرتے ہیں۔ انہیں بھی درد محسوس ہوتا ہے لیکن فضل پر ان باتوں کا کوئی اثر نہیں ہوتا تھا۔ وہ گدھوں کے زخم ٹھیک ہی نہیں ہونے دیتا تھا اور رسی بڑی سخت باندھتا تھا جو زخم کے اندر چلی جاتی تھی اور زخم کے اوپر ڈنڈے مارتا تھا تاکہ گدھے جلدی جلدی بھاگ کر کام کریں اور رات کو گدھوںکو چارہ بھی نہیں ڈالتا تھا۔ وہ ساری رات گلیوں میں گند وغیرہ کھا کر گزارہ کرلیتے تھے اور صبح پکڑ کر کام کراتا تھا۔
خدا جانوروں کی پکار بھی یقیناً سنتا ہے۔ فضل کٹانہ سخت بیمار ہوگیا اس کو لاعلاج بیماری لگ گئی جیسے ہی فضل سونے کیلئے آنکھیں بند کرتا دھاڑ دھاڑ کرتے ہوئے شور مچانے لگ جاتا کہ گدھے مجھے کاٹتے ہیں۔میرے جسم کو گدھے کھارہے ہیں مجھے بچائو.... مجھے بچائو.... جتنا عرصہ بیمار رہا ایک پل بھی چین سے نہ سوسکا۔
سچ ہے کہ بے زبان جانوروں پر ظلم کرتا ہے اس کا انجام ایسا ہی ہوتا ہے۔
فوت ہونے پر پیٹھ پر پنجے کا نشان (سید واجد حسین بخاری‘ احمد پور شرقیہ)
جو بھی مخلوق خدا کو تنگ کرتا ہے۔ وہ ہمیشہ پریشان ہی رہتا ہے جو شوقیہ شکار کرتے ہیں یا مرغ پالتے ہیں‘ کبوتر پالتے ہیں‘مرغ لڑاتے ہیں ان کا انجام خراب ہی ہوتا ہے۔ ایک نوجوان نے سچا واقعہ سنایا کہ ہمارے علاقے میں ایک شخص بڑا ہی رنگین مزاج تھا اسے مرغ لڑانے کا بہت شوق تھا۔ مرغ کو خاص قسم کی دوا کھلاتا تھا۔ بادام کھلاتا تھا اور لمبے قد والا ”اصیل“ نسل کا مرغا تلاش کرتا تھا تاکہ وہ جمپ لگا کر مخالف مرغ کو زیادہ سے زیادہ زخمی کرسکے اور اکثر ایسا ہوتا تھا کہ مخالف مرغا یا تو اندھا ہوجاتا تھا یا پھر معذور ہوکر مرجاتا تھا۔ اس کی کوشش ہوتی تھی کہ ہمیشہ جیت اس کی ہو‘ جب کچھ عمر ڈھلی تو دوستوں نے منع کرنا شروع کردیا کہ اب مرغ لڑانا ختم کرو‘ تمام دھندے ختم کرو اور اللہ کو یاد کرو۔ مگر وہ کسی کی بات نہیں مانتا تھا اور ہر وقت مرغ لڑانے کی باتیں کرتا تھا اور بڑے فخریہ انداز میں کہتا تھا کہ میرے مرغ نے ہمیشہ مخالف مرغے کو پنجے مار مار کر ادھ موا کردیا تھا اور پھر خوب ہنستا تھا۔ اچانک ہی اس کو بیماری لگی اور وہ بستر پر لگ گیا اور ہروقت یہی کہتا تھا کہ جب میں آنکھیں بند کرتا ہوں تو اس وقت ایک مرغا میری آنکھوں اور پیٹھ پر حملہ کرتا ہے اور شور مچاتا کہ مجھے بچائو.... یہی کہتے کہتے وہ فوت ہوگیا۔ ایک نوجوان نے کہا کہ جب وہ فوت ہواتو میں نے غسل دیا۔ اس وقت اس کی پیٹھ پر پنجے کے نشان تھے جیسے ابھی ابھی کسی مرغے نے پنجے مارے ہیں۔
سچ ہے کہ جو صرف اپنی خواہشات کی تسکین کیلئے انسانیت کی حد سے گزر جاتا ہے اس کا انجام ایسے ہی ہوتا ہے۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں